حبیب جالب شاعری اور شہری حقوق کی جنگ
حبیب جالب 24 مارچ1928 کو قصبہ دسویا میں پیدا ہوئے ہوشیار پور پبجاب میں پیدا ہوئے. دہلی کے اینگلو عربک ہائ اسکول سے میٹر کی اور اس کے بعد کراچی جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی اور پھر لائلپور ٹیکسٹائل مل روزنامہ جنگ سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے
سیاسی تحریک میں شمولیت:
آزادی کے بعدکراچی آئے اور ایک عرصہ سندھ ہاری تحریک میں کام کیا جس کے رہنما حیدر بخش جتوی تھے, ان کی سیاسی زہن سازی اور معاشرے میں نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد نظمو کا آغاز اورسوچ یہی سے پیدا ہوئ.
مستقل رہائش:
جالب پاکستان کے مختلف شہروں سے ہجرت کرتے بل آخر پاکستان کے شہر لاہور میں مستقل طور پر آباد ہو گئے, انہوں نے اپنا پہلا کلام برگآوارہ 1957میں میں شائع کیا,
حالات سیاست:
1958 ملک پاکستان میں پہلا دور امریت شروع ہوا ایوب خان کی امریت میں پاکستان میں پہلا نامنہاد دستور 1962میں پیش کیا گیا جس پر حبیب جالب نے ایک نظم کہی جو کہ آنے والے دور میں کہی سنی جاتی رہی جو کہ عوم کے جزبات کو مزید ابھارنے کا سبب بنی.میں نہیں مانتا "میں نہیں مانتا"
دور یحیی خان:
1970 جب یحیی خان نے انتخابات کے بعد اقتدار اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو منتقل نہیں کیا اور جوابن ان پر گولیاں برسائ اس وقت مغربی پاکستان تقریبا اس فوجی کاروائ کی حمایت کر رہے تھے تو اس وقت جالب ہی تھا جو کہ کہہ رہا تھا: محبت گولیوں سے بو رہے ہو, وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو, گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے, یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو,
دور زلفقار علی بھٹو:
وزیر اعظم زلفقار علی بھٹو 1974میں جن کے کندھو پر بیٹھ کر قتدار تک پونچے تھے ان سب کو بعد از حیدرآباد کیس میں بند کر دیا اس وقت یہ نظم کہی, قیصر شاہی سے یہ حکم صادر-ہوا لاڑکھانا چلو اورنہ تھانے-چلو
دور ضیاءالحق:
حیدرآباد کیس ختم ہوا تو یہ ضیاءالحق کا دور اقتدار تھا جب کیس ختم ہونے پر باقی اسیرو کی طرح نا ضیاء الحق سے ہاتھ ملایا اور نا ان کی حنمایت کی یہ دوسرا دور امریت تھا جس پر جالب کہتے ہیں: ظلمت کو ضیا ء صر-صر کو صبا بندے کو خدا کیا-لکھنا
وفات:
کارکن شہری حقوق, شاعر نغمہ نگار ,غنائ شاعر, زندہ ضمیر یہ شخص 13مارچ 1993 کو 65سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے بعد از حکومت پاکستان نے 2006میں ان کے نام سےحبیب امن ایوارڈ جاری کیا.
0 Comments