گلگت بلتستان پاکستان کا وہ حصہ ہے جسے بھارت آزاد کشمیر کے ساتھ اپنا دعویٰ کرتا ہے
چند روز پہلے ہی بھارتی حکام کی طرف سے پھر کہا گیا ہے کہ سی پیک کی جو انسٹالیشنز گلگت بلتستان میں ہو رہی ہیں وہ ناجائز ہیں وہ ہمارا علاقہ ہے لہٰذا پاکستان اس کا قبضہ چھوڑ دے وغیرہ وغیرہ۔۔۔!! اور اس دعوے کے ساتھ ساتھ بھارت اس علاقے میں پراپیگنڈہ وار کے ذریعے سے بھی مسلسل خانہ جنگی اور بغاوت کی راہ ہموار کرتا رہتا ہے۔۔۔!! ایسی صورتحال میں پاکستان پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ بلوچستان کی طرح گلگت بلتستان والوں میں بھی کسی قسم کی احساس محرومی کو پنپنے نہ دیا جائے اور ان کے مسائل کو فوری ترجیحی بنیادوں پر جلد حل کیا جائے، اس تحریر میں جس مسئلے کو واضح کرنا مقصود ہے اس کے لیے بلتستان سے ایک نوجوان نے رابطہ کیا۔۔!! پہلی دو تصاویر میں جو ٹیڑھی میڑھی لمبی لائن ہے یہ جگلوٹ سے سکردو جانے والا راستہ ہے، جس کی حالت انتہائی مخدوش ہے،
اس خطرناک روٹ پر فوجی جوانوں سمیت سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔۔۔یہ راستہ سکیورٹی پوائنٹ آف ویو سے بھی کافی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے علاوہ کارگل، کے ٹو اور سیاچن گلیشیر کی طرف جانے کا بھی یہ واحد راستہ ہے جس کا کوئی اور متبادل موجود نہیں۔۔۔ اس راستے کو تعمیر کرنا ان علاقاجات سے محفوظ رابطے،قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکنے اور وہاں کی عوام کو اس مسئلے سے نجات دلا کر انہیں احساس محرومی سے بچانے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔۔۔!! انہیں پہلی دو تصاویر پر جو سرخ رنگ کی چھوٹی اور سٹریٹ لائن ہے یہ نئے راستے کی تجویز ہے۔۔ جو ایک ٹنل کی صورت میں ہوگا۔۔۔ اس ٹنل کی ٹوٹل لمبائی 7 کلو میٹر سے بھی کم بنتی ہے جو وقت اور سفر دونوں کو بچانے کے علاوہ انتہائی محفوظ بھی ثابت ہوگی،اور ان علاقاجات سے آسان رابطے کا ذریعہ بھی۔۔۔اس کے برعکس موجودہ خطرناک راستہ تقریباً 65 کلومیٹر طویل اور انتہائی غیر محفوظ ہے۔۔۔!! اب آ جائیں تصویر نمبر تین کی طرف یہ بھارت کی طرف سے حال ہی میں تعمیر کی جانے والی 14 کلومیٹر طویل ٹنل کی ڈائگرام ہے۔۔۔جو مقبوضہ کشمیر میں تعمیرکی گئی ہے۔۔۔۔ جہاں ایک طرف بلتستانی عوام ان مسائل کا شکار ہے وہیں پر انہیں اس ٹنل کی تصاویر دکھا دکھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ بھارت یوں اپنے متنازع علاقے
میںں عوامی فلاح و بہبود کے کام کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ایسی صورتحال میں جب بھارت مسلسل گلگت بلتستان میں پراپیگنڈے کے ذریعے عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔اس میں ایسی حقیقی چیزیں کیسا کردار ادا کرتی ہیں میرے خیال میں بتائے جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ لہذا اس تمام سنیریو کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں حکومت پر ںہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور صارفین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروائے اور اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔۔۔ سبھی احباب سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس نئے راستے کی تعمیر کی کمپین کا حصہ بنیں، متعلقہ حکام کو ٹیگ کر انہیں اس طرف متوجہ کریں۔۔ایک دو دن میں اس حوالے سے ایک باقاعدہ ٹرینڈ بھی پلان کر رہے ہیں۔۔۔!! تحریر:
0 Comments