جھوٹے مقدمات کو روکنے میں پاکستان کا قانون کتنا موثر؟ ترتیب : حافظ محمد قیصر پاکستان میں ایسے ہزاروں مقدمات ہیں جن میں ملزمان سالہا سال جیلوں میں گزارتے ہیں اور اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ اُن مقدمات میں شواہد کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملزمان کو بری کر دیتی ہیں۔ توہین مذہب کے مقدمات کی ہی مثال لے لیں تو حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک ملزم وجیہہ الاحسن کو رہا کیا ہے جو گذشتہ 20 سال سے جیل میں قید تھا جو افراد جھوٹے مقدمات میں اپنی زندگی کا ایک حصہ جیلوں میں گزار دیتے ہیں تو پاکستان کی کوئی بھی عدالت یا کوئی بھی قانون جیل میں گزاری جانے والی اس مدت کا ازالہ نہیں کرسکتا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود ہے جس کے تحت جھوٹے مقدمات درج کروانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے 👈 تعزیرات پاکستان کی شق 182 تعزیرات پاکستان کی ایک شق 182 ہے جو کہ غلط مقدمہ درج کروانے سے متعلق ہے، یعنی اگر کسی نے اپنے کسی مخالف کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے اور عدالت میں یہ مقدمہ ثابت نہیں ہوا تو مدعیِ مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان کی ماتحت عدلیہ کی تاریخ میں دو درجن سے زیادہ سنگین نوعیت کے مقدمات ایسے ہیں جن میں جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر مدعی مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے لیکن اس میں کسی بھی شخص کو تین ماہ سے زیادہ سزا نہیں سنائی گئی 👈دفعہ 182 کے تحت کارروائی کیسے عمل میں لائی جاتی ہے؟ قانون میں اس شق کی تشریح کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سرکاری ملازم کو کسی کے خلاف کوئی معلومات دے اور وہ سرکاری ملازم اس شخص کے خلاف اپنے اختیارات استعمال کرے اور بعدازاں یہ اطلاع جھوٹی ثابت ہو تو اس شکایت کرنے والے کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت پولیس مقدمے کا اندراج کرنے کی پابند ہے اور مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس تفتیش کرنے کی پابند ہے۔ اگر پولیس کسی وجہ سے کسی شخص کی درخواست پر مقدمہ درج نہ کرے تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 اے کے تحت عدالت میں درخواست دائر کی جاسکتی ہے اور عدالتی حکم پر پولیس مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد ملزم کے خلاف تفتیش کا عمل شروع کیا جاتا ہے اور تفتیش کے بعد مقدمہ عدالتوں میں زیر سماعت ہوتا ہے۔ اگر عدالت ملزم کو بری کردیتی ہے اور ملزم پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ثابت ہوتے ہیں تو قانون کے مطابق اس مقدمے کا تفتیشی پولیس افسر مدعیِ مقدمہ کے خلاف کارروائی کے لیے ایک قلندرہ بنا کر علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں بھجوا دیتا ہے۔ علاقہ مجسٹریٹ اس بارے میں شکایت کندہ کو نوٹس جاری کرتا ہے اور بعدازاں فرد جرم عائد ہونے کے بعد اُنھیں اس سزا سنائی جاتی ہے۔ دفعہ 30 کے مجسٹریٹ کے پاس زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی سزا دینے کا اختیار ہے۔ قانون میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ایسا مقدمہ جس میں کسی ملزم کو مقامی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہو یا سزا ہوسکتی ہو اور مقامی عدالت یا اعلیٰ عدالتوں نے اُنھیں ان الزامات سے بری کردیا گیا ہو تو ایسے مقدمے کے مدعی کو سات سال قید کی سزا ہے جبکہ ایسا مقدمہ جس میں کسی شخص کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہو یا ہوسکتی تو ایسے مدعیِ مقدمہ کو پانچ سال کے لیے جیل جانا ہوگا۔ ضابطہ فوجداری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی بھی درخواست پر تفتیش کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہو تو پھر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 182 کا اطلاق نہیں ہوگاقانون کے مطابق یہ ایک قابل ضمانت جرم ہے جبکہ قابل راضی نامہ نہیں ہے۔ پولیس کے ایک سابق ایس پی کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر تفتیشی افسران ایسے مقدمات میں جن میں الزام ثابت نہ ہو سکا ہو مدعی مقدمہ کے خلاف علاقہ مجسٹریٹ کو قلندرہ نہیں بھجواتے۔ نہ ہی الزام بھگتنے والے اس بارے میں تفتیشی افسر کو کہتے ہیں چونکہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں اس لیے مدعی مقدمہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ تفتیشی افسر کے علاوہ پولیس افسران بھی اس جانب توجہ نہیں دیتے کہ جھوٹے مقدمات کے اندراج کے رجحان کو روکنا چاہیے۔ پولیس کے ایک تفتیشی افسر کے مطابق ایک تفتیشی افسر کے پاس 40، 50 مقدمات کی تفتیش ہوتی ہے تو ایسے حالات میں وہ بمشکل مقدمے کے فیصلے سے آگاہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت ہوتا کہ قلندہ بھجوایا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ قلندرہ بھجوانے کے لیے متعقلہ عدالت کی طرف سے بھی اس ضمن میں نوٹس نہیں بجھوایا جاتا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں کم از کم چار سے پانچ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے اور اس عرصے میں تفتیشی افسران کی ان تھانوں سے ٹرانسفر بھی ہوچکی ہوتی ہیں جہاں پر اُنھوں نے مقدمہ درج کیا تھا۔ ماہر قانون دان کہتے ہیں کہ جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی کے لیے بنائے گئے قانون کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے واقعات میں




 دینے والے جج کے خلاف کارروائی ممکن ہے؟ اگر ماتحت عدلیہ کا کوئی جج کسی مقدمے میں غلط فیصلہ کرتا ہے تو ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی مجاز ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کسی بھی ماتحت عدلیہ کے جج کو غلط فیصلہ دینے کی بنا پر اس کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔